Skip to main content

Harām Wealth and Inheritance

بِسۡمِ اللهِ الرَّحۡمٰنِ الرَّحِيۡمِ

حرام مال اور وراثت

اردو ترجمہ نیچے

1.Introduction

One of the major ethical challenges facing Muslims today is ensuring that their wealth is earned and maintained through halāl (permissible) means. Sadly, acquiring wealth through deception, fraud, and dishonesty has become widespread, even among those who outwardly maintain religious practices. Allāh warns us in the Qur'ān:

"Your wealth and your children are but a trial" (Qur'an 64:15).

Islāmic teachings are clear that the acquisition and consumption of unlawful (harām) wealth is categorically forbidden. The Prophet Muhammad () also cautioned that a time would come when people would no longer care whether their earnings were halāl or harām. Indifference to the nature of wealth not only jeopardizes individual spirituality but also poses serious implications for how wealth is inherited and distributed after death.

تعارف

آج کے دور میں مسلمانوں کو درپیش سب سے بڑے اخلاقی چیلنجوں میں سے ایک یہ ہے کہ وہ اس بات کو یقینی بنائیں کہ ان کی کمائی اور دولت حلال (جائز) ذرائع سے حاصل کی جائے اور محفوظ رہے۔ افسوس کی بات ہے کہ دھوکہ دہی، فراڈ اور بددیانتی کے ذریعے دولت حاصل کرنا اب عام ہو چکا ہے، یہاں تک کہ ان لوگوں میں بھی جو ظاہری طور پر دینی اعمال کے پابند نظر آتے ہیں۔ اللہ تعالیٰ قرآنِ مجید میں خبردار فرماتا ہے:

"تمہارے مال اور تمہاری اولاد تمہارے لیے آزمائش ہیں" (قرآن 64:15)۔

اسلامی تعلیمات بالکل واضح ہیں کہ ناجائز (حرام) طریقے سے مال کمانا اور اس کا استعمال قطعی طور پر ممنوع ہے۔ نبی اکرم ﷺ نے بھی خبردار فرمایا تھا کہ ایک وقت ایسا آئے گا جب لوگ اس بات کی پروا نہیں کریں گے کہ ان کی کمائی حلال ہے یا حرام۔ دولت کی نوعیت سے بے پروائی نہ صرف انفرادی روحانیت کو نقصان پہنچاتی ہے بلکہ وراثت کی تقسیم اور دولت کے انتقال پر بھی سنگین اثرات ڈالتی ہے۔

 

2. Inheritance of Illegitimate Wealth in Islāmic Law

Islāmic law strictly maintains that wealth unlawfully acquired during a person's lifetime remains prohibited even after their death. The principle is clear: death does not purify harām wealth. Therefore, wealth obtained through forbidden means such as theft, fraud, or deception cannot lawfully be transferred to heirs.

All major Islāmic schools of thought (Hanafi, Maliki, Shafi'i, and Hanbali) agree on this principle. Scholars such as Ibn Rushd and Imam al-Ghazali firmly stated that harām wealth remains impermissible, and inheritance cannot transform its nature. If illegally acquired wealth is identified in an estate, it must either be returned to the rightful owners or, if that is not possible, given in charity.

Ibn Abidin, a renowned Hanafi jurist, explicitly states that harām wealth is "absolutely forbidden for heirs, whether they know its owners or not. If they know the owners, they must return it to them; otherwise, they must give it in charity."

Imam Nawawi of the Shafi’I school and one of the most influential Islāmic scholars in history said: "If one knows there is harām wealth in the inheritance and is uncertain about its amount, one must remove the estimated harām portion through careful assessment."

The Maliki school position is clear that "the inheritance does not make harām wealth halāl for the heirs…. because the claimants against it have more right than the heirs." 

The Hanbali position aligns with the other schools in prohibiting the inheritance of unlawfully acquired wealth. 

This consensus is further reinforced by Shaykh al-Islām Ibn Taymiyah, who affirmed that for any portion known to be from prohibited sources, "it must be returned to its rightful owners if possible, otherwise it should be given in charity."

Imam Al-Ghazali said: “Wealth is a means of sustenance, but when it is acquired unlawfully, it becomes a means of destruction.”

اسلامی قانون میں ناجائز دولت کا وراثتی حکم

اسلامی قانون میں یہ اصول سختی سے قائم ہے کہ کسی شخص کی زندگی میں ناجائز طریقے سے حاصل کی گئی دولت، اس کی موت کے بعد بھی حرام ہی رہتی ہے۔ اصول بالکل واضح ہے: موت حرام دولت کو پاک نہیں کرتی۔ لہٰذا چوری، دھوکہ دہی یا فریب جیسے حرام ذرائع سے حاصل کی گئی دولت وارثوں کو جائز طور پر منتقل نہیں کی جا سکتی۔

تمام بڑے اسلامی مکاتبِ فکر (حنفی، مالکی، شافعی، اور حنبلی) اس اصول پر متفق ہیں۔ ابن رشد اور امام غزالی جیسے جلیل القدر علماء نے واضح طور پر فرمایا ہے کہ حرام دولت بدستور حرام ہی رہتی ہے، اور وراثت اسے حلال نہیں بنا سکتی۔ اگر کسی میت کی جائیداد میں حرام دولت کی نشاندہی ہو جائے تو اسے یا تو اصل مالکان کو واپس کرنا ہوگا، اور اگر یہ ممکن نہ ہو تو صدقہ کر دینا واجب ہے۔

مشہور حنفی فقیہ ابن عابدین صراحت سے لکھتے ہیں کہ حرام دولت "وارثوں کے لیے قطعاً حرام ہے، چاہے وہ اصل مالکان کو جانتے ہوں یا نہ جانتے ہوں۔ اگر وہ مالکان کو جانتے ہیں، تو ان کو واپس کرنا لازم ہے؛ اور اگر نہ جانتے ہوں، تو اسے صدقہ کر دینا چاہیے۔"

شافعی مکتبِ فکر کے امام نووی، جو تاریخ کے سب سے بااثر اسلامی علماء میں شمار ہوتے ہیں، نے فرمایا: "اگر کسی کو وراثت میں حرام دولت ہونے کا علم ہو اور مقدار کا صحیح اندازہ نہ ہو، تو محتاط اندازے سے اس حرام حصے کو نکال دینا لازم ہے۔"

مالکی مکتبِ فکر کا موقف بھی بالکل واضح ہے کہ "وراثت حرام دولت کو وارثوں کے لیے حلال نہیں بناتی… کیونکہ اصل دعوے داروں کا اس پر وارثوں سے زیادہ حق ہے۔"

حنبلی مکتبِ فکر بھی دیگر مکاتب کی طرح ناجائز ذرائع سے حاصل کی گئی دولت کے وراثتی انتقال کو ممنوع قرار دیتا ہے۔

اس اجماعی موقف کو شیخ الاسلام ابن تیمیہ نے مزید تقویت دی، جنہوں نے فرمایا: "اگر کسی دولت کا کوئی حصہ حرام ذرائع سے حاصل ہونے کا معلوم ہو، تو اگر ممکن ہو تو اسے اس کے اصل مالکان کو واپس کرنا چاہیے، اور اگر ممکن نہ ہو تو صدقہ کر دینا چاہیے۔"

امام غزالی نے فرمایا: "دولت ذریعۂ رزق ہے، لیکن جب ناجائز طریقے سے حاصل کی جائے تو وہ ذریعۂ ہلاکت بن جاتی ہے۔"

 

3. Common Sources of Illegitimate Earnings

Some common avenues through which illegitimate wealth is acquired in the UK include:

  • Claiming state benefits illegally: Concealing income, property or assets, providing false information, giving false testimony, faking illness or disability. The Prophet () said: "He who cheats is not of us.” (Muslim)
  • Insurance fraud: Exaggerating or fabricating claims or providing services to make fraudulent claims.
  • Tax evasion: Deliberately and purposefully avoiding paying rightful taxes illegally such that it constitutes a crime.
  • Selling prohibited goods and services: Selling pork products, alcohol, drugs, lottery tickets, pornographic material, interest-based financial products, fortune telling, spell casting, and providing gambling services. The Prophet Muhammad () said: When Allah forbids a thing, He (also) forbids its price.”
  • Renting property for harām purposes. If a Muslim landlord knows that the property he is renting out will be used for harām purposes (such as prostitution, drug cultivation, selling alcohol, etc.), the rental income is considered haram. If the landlord rents the property for a permissible use (e.g., residential or general business), but the tenant later engages in harām activities without the landlord’s knowledge or consent, the rent remains halāl for the period before the landlord becomes aware. 
  • Selling by dishonesty: Lying to or deceiving the buyer in a sale contract.
  • Inheritance fraud: Deceiving others or forging documents to acquire an unfair share of inheritance.

The Prophet () emphasized that honest, lawful earnings bring barakah (blessing), whereas harām income corrupts the soul, hardens the heart, and leads to divine rejection. He () said, "Any flesh nourished by ḥarām is more deserving of the Hellfire.” (Tirmidhī)

آمدنی کے ناجائز ذرائع

برطانیہ میں ناجائز دولت حاصل کرنے کے کچھ عام طریقے درج ذیل ہیں

ریاستی فوائد (Benefits) کو غیر قانونی طور پر حاصل کرنا: آمدنی، جائیداد یا اثاثے چھپانا، جھوٹی معلومات دینا، جھوٹی گواہی دینا، بیماری یا معذوری کا جھوٹا دعویٰ کرنا۔ نبی کریم ﷺ نے فرمایا: "جو دھوکہ دے وہ ہم میں سے نہیں۔" (مسلم)

انشورنس میں فراڈ: دعوے کو بڑھا چڑھا کر پیش کرنا یا فرضی دعوے داخل کرنے کے لیے جھوٹی خدمات فراہم کرنا۔

ٹیکس چوری: جان بوجھ کر اور ارادتاً جائز ٹیکس نہ دینا، یہاں تک کہ یہ قانوناً جرم بن جائے۔

حرام اشیاء اور خدمات کی خرید و فروخت: خنزیر کے گوشت سے بنی اشیاء، شراب، منشیات، لاٹری کے ٹکٹ، فحش مواد، سود پر مبنی مالیاتی مصنوعات، قسمت بتانا، تعویذ گنڈے بیچنا، جوا کھیلنے کی خدمات بیچنا۔

حرام مقاصد کے لیے جائیداد کرایہ پر دینا:
اگر کوئی مسلمان مالک مکان جانتا ہو کہ وہ جائیداد جو وہ کرایہ پر دے رہا ہے، حرام کاموں کے لیے استعمال ہوگی (جیسے فحاشی، منشیات کی کاشت، شراب کی فروخت وغیرہ)، تو اس کرایہ کی آمدنی حرام شمار ہوگی۔ لیکن اگر مالک مکان جائیداد کو جائز مقصد کے لیے کرایہ پر دیتا ہے (مثلاً رہائشی یا عام کاروبار کے لیے)، اور بعد میں کرایہ دار بغیر مالک کی اجازت یا علم کے حرام سرگرمیوں میں ملوث ہو جائے، تو مالک کو اس وقت تک جو کرایہ ملے وہ حلال سمجھا جائے گا جب تک کہ اسے ان سرگرمیوں کا علم نہ ہو جائے۔

دھوکہ دہی سے اشیاء بیچنا: خریدار سے جھوٹ بول کر یا اسے دھوکہ دے کر خرید و فروخت کرنا۔

وراثت میں دھوکہ دہی: دوسروں کو دھوکہ دے کر یا جعلی دستاویزات کے ذریعے وراثت میں ناجائز حصہ حاصل کرنا۔

نبی کریم ﷺ نے زور دیا کہ دیانت دار اور جائز کمائی میں برکت ہوتی ہے، جبکہ حرام کمائی روح کو آلودہ کرتی ہے، دل کو سخت کر دیتی ہے اور اللہ کی ناراضی کا باعث بنتی ہے۔ آپ ﷺ نے یہ بھی فرمایا: "جو گوشت حرام سے پلا ہو، وہ آگ کا زیادہ حق دار ہے۔" (ترمذی)

 

4. Practical Implementation for Heirs

When heirs discover that their inheritance contains unlawfully acquired wealth, they face several practical obligations:

4.1. Verification of Sources

Imam Nawawi states: "If one inherits wealth and does not know how the deceased acquired it, whether from halāl or harām sources, and there are no indications, it is halāl by scholarly consensus." However, if there is knowledge or strong suspicion of illegitimate sources, further investigation is required.

4.2. Separation and Return

If specific illegitimate wealth is identified and its original owners are known, this portion must be separated from the estate and returned to the rightful owners or their heirs. 

4.3. Charitable Distribution

When the original owners cannot be identified, the unlawful portion should be given in charity. As noted in a fatwa in Arabic: "If the owner is not known, then it returns to its original owner, who is Allāh, glory be to Him. And since Allāh () is free of need for any possession, He has given it to His needy servants through charity."

4.4. Special Consideration for Needy Heirs

Some scholars permit destitute heirs to benefit from the harām wealth through the mechanism of charity, not inheritance. "If the heirs are poor, they may take this money if its owner is unknown, but they should take it as a charity, not as inheritance." 

ورثاء کے لیے عملی نفاذ

جب ورثاء کو معلوم ہو کہ ان کی وراثت میں ناجائز طریقے سے حاصل کی گئی دولت شامل ہے، تو ان پر چند عملی ذمہ داریاں عائد ہوتی ہیں:

4.1 ذرائع کی تصدیق

امام نووی فرماتے ہیں:
"اگر کسی کو وراثت میں دولت ملے اور یہ معلوم نہ ہو کہ مرحوم نے یہ دولت حلال ذرائع سے حاصل کی تھی یا حرام ذرائع سے، اور اس بارے میں کوئی نشانیاں یا شواہد بھی موجود نہ ہوں، تو علما کے اجماعی فیصلے کے مطابق یہ دولت حلال تصور کی جائے گی۔"
تاہم اگر ناجائز ذرائع سے حاصل ہونے کا علم ہو یا قوی شبہ ہو، تو مزید تحقیق کرنا ضروری ہے۔

4.2 علیحدگی اور واپسی

اگر کسی مخصوص ناجائز دولت کی شناخت ہو جائے اور اس کے اصل مالکان معلوم ہوں، تو اس حصے کو جائیداد سے علیحدہ کرنا اور اسے اصل مالکان یا ان کے ورثاء کو واپس کرنا لازم ہے۔

4.3 صدقہ میں دینا

جب اصل مالکان کی شناخت ممکن نہ ہو، تو ناجائز دولت کے اس حصے کو صدقہ میں دینا چاہیے۔
جیسا کہ ایک عربی فتویٰ میں ذکر ہے:
"اگر مالک معلوم نہ ہو، تو یہ مال اپنے اصل مالک، یعنی اللہ تعالیٰ، کی طرف لوٹایا جاتا ہے۔ اور چونکہ اللہ تعالیٰ کسی چیز کے محتاج نہیں، اس لیے اس مال کو اللہ کے ضرورت مند بندوں پر صدقہ کر دینے کا حکم دیا گیا ہے۔"

4.4 ضرورت مند ورثاء کے لیے خصوصی رعایت

بعض علما نے اجازت دی ہے کہ اگر ورثاء انتہائی محتاج ہوں اور مال کے اصل مالک کا پتہ نہ ہو، تو وہ اس دولت سے بطور صدقہ فائدہ اٹھا سکتے ہیں، لیکن اسے وراثت کے طور پر نہیں لینا چاہیے۔
جیسا کہ ایک ماخذ میں وضاحت کی گئی ہے:
"اگر ورثاء غریب ہوں اور مالک معلوم نہ ہو، تو وہ یہ مال لے سکتے ہیں، مگر انہیں یہ مال صدقہ کی نیت سے لینا چاہیے، وراثت کے طور پر نہیں۔"

 

5. Consequences of Inheriting Illegally Acquired Wealth Under Islāmic Law

The inheritance of unlawfully acquired property has serious legal and spiritual consequences:

  • Illegally acquired property remains prohibited for heirs and must be returned.
  • Benefiting from stolen assets without restitution constitutes a grave sin.
  • Suppression of spirituality: Taking property or wealth unjustly is a major sin. Harām wealth blocks the acceptance of prayers and spiritual growth.
  • Afterlife accountability: The Prophet () warned that unlawful wealth would become fuel for Hellfire if not rectified.
  • Legal claims: If rightful owners emerge, they can legally reclaim their property, even after distribution.
  • Spiritual liability: Those who knowingly retain stolen assets risk severe punishment in the Hereafter.
  • Estate responsibility: Property or wealth acquired illegally is considered a debt to the rightful owner. Settling all debts and returning unjustly acquired assets is a mandatory first step before distributing an estate.
  • All four Sunni schools of jurisprudence agree that zakāt is not invalid on harām wealth.
  • Charity from harām wealth is not accepted. (Ibn Hibban 3367)

Thus, heirs must exercise extreme care to ensure that the estate is purified before claiming any share.

اسلامی قانون میں ناجائز طریقے سے حاصل کی گئی دولت کی وراثت کے نتائج

ناجائز ذرائع سے حاصل کی گئی جائیداد کی وراثت کے سنگین قانونی اور روحانی اثرات ہوتے ہیں:

• ناجائز طریقے سے حاصل کی گئی جائیداد وارثوں کے لیے بدستور حرام ہی رہتی ہے اور اسے اصل مالک کو واپس کرنا واجب ہوتا ہے۔

• غصب یا چوری شدہ مال سے فائدہ اٹھانا—جب تک اس کی تلافی نہ کی جائے—سنگین گناہ شمار ہوتا ہے۔

• روحانیت کی روک تھام: ناحق دولت کا لینا بڑا گناہ ہے۔ حرام مال دعا کی قبولیت اور روحانی ترقی کی راہ میں رکاوٹ بنتا ہے۔

• آخرت کی جواب دہی: نبی اکرم ﷺ نے خبردار فرمایا کہ ناجائز دولت اگر واپس نہ کی گئی تو وہ دوزخ کا ایندھن بنے گی۔

• قانونی حق: اگر اصل مالک سامنے آ جائے تو وہ اپنی ملکیت کو واپس لینے کا پورا قانونی اختیار رکھتا ہے، خواہ وہ وراثت میں تقسیم ہو چکی ہو۔

• روحانی بوجھ: جو شخص جان بوجھ کر غصب شدہ مال اپنے قبضے میں رکھتا ہے، وہ آخرت میں سخت عذاب کا خطرہ مول لیتا ہے۔

• ترکہ کی شرعی ذمہ داری: ناجائز طریقے سے حاصل کی گئی دولت اصل مالک کا قرض شمار ہوتی ہے۔ ایسی دولت کی ادائیگی اور واپسی، وراثت کی تقسیم سے پہلے لازمی اور اولین مرحلہ ہے۔

اہلِ سنت کے چاروں فقہی مذاہب اس بات پر متفق ہیں کہ حرام مال پر دی گئی زکوٰۃ درست (صحیح) نہیں ہوتی۔

حرام مال سے کیا گیا صدقہ یا خیرات اللہ کے ہاں قبول نہیں ہوتا۔ (ابن حبان 3367)

لہٰذا، وارثوں پر لازم ہے کہ وہ پوری تحقیق اور انتہائی احتیاط کے ساتھ یہ یقینی بنائیں کہ ترکہ پاکیزہ اور جائز ہو چکا ہے، تبھی وہ اس میں اپنا حصہ لینے کے مستحق ہو سکتے ہیں۔

 

6. Conclusion

Islāmic law provides a robust ethical framework emphasizing that wealth must be acquired and transferred through lawful means. It is better to address the matter of wealth acquired by illegal means before one dies rather than leaving this responsibility to one’s heirs. Property or wealth acquired illegally is considered a debt to the rightful owner which will have to be paid. Death does not purify harām wealth, and heirs bear the responsibility of rectifying any such unlawful assets before distribution. Muslims are urged to prioritize justice, honesty, and accountability in financial matters, knowing that the true test lies not in how much we own, but in how we earn it and how we distribute it.

As the Prophet Muhammad () profoundly reminded: “A person’s feet will not move on the Day of Judgment until he is asked about his wealth: how he earned it and how he spent it." (Tirmidhi). The Prophet also warned us: “No flesh nourished by harām enters Paradise, Hellfire claims it first” (Tirmidhi). Virtually every penny will have to be accounted for as Allāh () says: "So whoever does an atom’s weight of good will see it, and whoever does an atom’s weight of evil will see it" (Quran 99:7–8). Umar ibn Al-Khattab () advised us by saying: "Hold yourselves accountable before you are held accountable, and weigh your deeds before they are weighed for you." (Muḥāsabat al-Nafs li-Ibn Abī Dunyā p22)

اختتامیہ

اسلامی قانون ایک مضبوط اخلاقی نظام فراہم کرتا ہے جو اس بات پر زور دیتا ہے کہ دولت صرف جائز اور حلال ذرائع سے حاصل کی جائے اور منتقل کی جائے۔ انسان کے لیے بہتر ہے کہ وہ اپنی زندگی میں ناجائز طریقے سے حاصل کی گئی دولت کا معاملہ خود حل کرے، بجائے اس کے کہ یہ بھاری ذمہ داری اپنے وارثوں پر چھوڑ دے۔ ناجائز ذرائع سے حاصل کی گئی دولت یا جائیداد اصل مالک کا قرض سمجھی جاتی ہے، جس کی ادائیگی لازم ہے۔ موت حرام دولت کو پاک نہیں کرتی، اور ورثاء پر لازم ہے کہ تقسیم سے قبل ایسی دولت کی اصلاح کریں۔

مسلمانوں کو مالی معاملات میں عدل، دیانت اور جواب دہی کو ہمیشہ مقدم رکھنا چاہیے، اس حقیقت کو ذہن میں رکھتے ہوئے کہ اصل امتحان دولت کی کثرت میں نہیں بلکہ اس میں ہے کہ ہم نے اسے کس طریقے سے حاصل کیا اور کہاں خرچ کیا۔

جیسا کہ نبی کریم ﷺ نے نہایت بلیغ انداز میں یاد دلایا
"قیامت کے دن بندے کے قدم اس وقت تک نہیں ہلیں گے جب تک اس سے اس کے مال کے بارے میں نہ پوچھا جائے گا—کہ اس نے اسے کیسے کمایا اور کہاں خرچ کیا۔"
(ترمذی)

آپ ﷺ نے یہ بھی خبردار فرمایا
"جو گوشت حرام سے پلا ہو، وہ جنت میں داخل نہ ہوگا، جہنم اس کا زیادہ حق دار ہے۔"
(ترمذی)

گویا ہمیں ہر پائی کا حساب دینا ہوگا، جیسا کہ اللہ تعالیٰ فرماتے ہیں
"پس جس نے ذرّہ برابر نیکی کی ہوگی، وہ اسے دیکھ لے گا، اور جس نے ذرّہ برابر برائی کی ہوگی، وہ اسے دیکھ لے گا۔"
(الزلزال 99:7–8)

حضرت عمر بن خطاب رضی اللہ عنہ نے نصیحت فرمائی
"اپنے نفس کا محاسبہ خود کرو، قبل اس کے کہ تمہارا محاسبہ کیا جائے، اور اپنے اعمال کو تولو، قبل اس کے کہ وہ تمہارے لیے تولا جائے۔"
(محاسبة النفس لابن أبی الدنیا، ص 22)

 

ڈاکٹر عابد حسین،  1446ھ

 

Dr. A. Hussain, 2025