Skip to main content

Why is Allāh telling those who already have imān to enter Islām completely

اردو ترجمہ نیچے

اللہ ایمان لانے والوں سے مکمل طور پر اسلام میں داخل ہونے کا حکم کیوں دے رہے ہیں؟

بِسۡمِ اللهِ الرَّحۡمٰنِ الرَّحِيۡمِ 

يَا أَيُّهَا الَّذِينَ آمَنُواادْخُلُوا فِي السِّلْمِ كَافَّةًوَلَا تَتَّبِعُوا خُطُوَاتِ الشَّيْطَانِ ۚإِنَّهُ لَكُمْ عَدُوٌّ مُبِينٌ

“O ye who believe, enter into Islām completely and do not follow the footsteps of Shaytān. Indeed, he is to you a clear enemy.” (Surah Al-Baqarah, 2:208)

This powerful verse is a direct call from Allāh () to those who already hold faith in their hearts. It is not addressed to strangers to Islām, but to believers, urging them to embrace the religion in its entirety, not merely in selected parts. The command to “enter into Islām completely” is a profound invitation to live with sincerity, depth, and integrity, making Islām the foundation of every aspect of our lives, not just a set of rituals.

It is easy to fall into the habit of limiting Islām to the rituals we perform: prayer, fasting, zakat, and Hajj. These are essential pillars, no doubt, but they are entry points into a broader and more comprehensive way of life. Islām is not meant to be compartmentalised with worship confined to the masjid, separated from how we behave at home, in business, or in the public sphere. Allāh () warns us against reducing His religion to rituals while neglecting the values that govern our interactions, truthfulness, compassion, justice, and integrity. This verse cautions us against following the subtle and gradual steps of Shaytān, who seeks to lead us away from full submission by encouraging excuses, justifying small lapses, and promoting the illusion that partial commitment is enough.

The Qur’an and the life of the Prophet Muhammad () teach us that every action, intention, and interaction can become an act of worship if aligned with Allāh’s guidance. Earning a living, for example, is not separate from faith. Islām places great importance on ensuring that our earnings are ḥalāl, free from fraud, deceit, and injustice. The Prophet () said: “The truthful and trustworthy merchant will be with the Prophets, the truthful, and the martyrs.” This reminds us that honesty and integrity in financial dealings are just as integral to our faith as prayer and fasting.

The story of Prophet Ibrahim () and his willingness to sacrifice his beloved son at Allāh’s command is an excellent and timeless example of full submission. His trial was not about ritual alone it was about surrendering his deepest attachment out of obedience to Allāh. That is the essence of what it means to “enter into Islām completely.”

Each of us must reflect upon our lives. What are we willing to sacrifice for the sake of Allāh ()? Are we prepared to abandon dishonest gains, resist the temptation of easy but unlawful earnings, and uphold truthfulness even when it is hard? True submission means placing Allāh’s commands above personal gain, convenience, or societal pressure and striving to bring every area of life in line with His guidance.

Let us strive to live Islām not only in our worship but in every word we speak, every action we take, and every relationship we build. Let our families and communities be rooted in compassion, honesty, and justice. Let our livelihoods be pure and our dealings fair. In doing so, we not only draw closer to Allāh but also become a source of trust, hope, and goodness for those around us.

May Allāh () grant us the strength and sincerity to enter into Islām completely, to resist the footsteps of Shaytān, and to live our faith with wholehearted devotion and conviction.

 

The above article is based the commentary of Ibn Kathir, Mufti Muhammad Shafii sahib, Abul Ala Maududdi sahib and other sources.

Dr. A. Hussain, May 2025.

____________________________________________________

 

اللہ ایمان لانے والوں سے مکمل طور پر اسلام میں داخل ہونے کا حکم کیوں دے رہے ہیں؟

بِسۡمِ اللهِ الرَّحۡمٰنِ الرَّحِيۡمِ 

يَا أَيُّهَا الَّذِينَ آمَنُواادْخُلُوا فِي السِّلْمِ كَافَّةًوَلَا تَتَّبِعُوا خُطُوَاتِ الشَّيْطَانِ ۚإِنَّهُ لَكُمْ عَدُوٌّ مُبِينٌ

"اے ایمان والو! اسلام میں پورے کے پورے داخل ہو جاؤ اور شیطان کے قدموں کی پیروی نہ کرو، بے شک وہ تمہارا کھلا دشمن ہے۔"

اس آیت میں اللہ تعالیٰ ایمان والوں کو براہِ راست مخاطب کرتے ہوئے فرماتے ہیں کہ وہ اسلام میں مکمل طور پر داخل ہوں۔ یہ خطاب اُن لوگوں سے ہے جو دل میں ایمان رکھتے ہیں، نہ کہ اُن سے جو ابھی اسلام سے ناآشنا ہیں۔ اس میں اہلِ ایمان کو محض دین کے کچھ حصے اختیار کرنے کے بجائے، دینِ اسلام کو اس کی مکمل شکل میں قبول کرنے کی دعوت دی گئی ہے۔ "اسلام میں پورے کے پورے داخل ہو جاؤ" ایک گہری دعوت ہے کہ مسلمان اخلاص، سنجیدگی اور مکمل وفاداری کے ساتھ زندگی گزاریں، اور اسلام کو صرف چند عبادات تک محدود نہ رکھیں بلکہ اپنی پوری زندگی کی بنیاد اسے بنائیں۔

یہ بہت آسان ہے کہ ہم اسلام کو صرف چند عبادات—نماز، روزہ، زکوٰۃ، اور حج—تک محدود کر دیں۔ بلاشبہ یہ ارکانِ دین نہایت اہم ہیں، مگر یہ درحقیقت ایک جامع طرزِ زندگی کی ابتدا ہیں۔ اسلام کوئی ایسا نظام نہیں جو صرف مسجد تک محدود ہو، بلکہ اس کا دائرہ ہماری نجی، معاشی، خاندانی اور عوامی زندگی کے تمام پہلوؤں پر محیط ہے۔ اللہ تعالیٰ ہمیں خبردار کرتے ہیں کہ ہم دین کو صرف رسم و رواج تک محدود نہ کریں، جبکہ سچائی، ہمدردی، عدل اور امانت جیسے اخلاقی اصولوں کو نظرانداز کر دیں۔ یہ آیت ہمیں شیطان کے ان تدریجی اور مخفی حملوں سے خبردار کرتی ہے، جو آہستہ آہستہ انسان کو مکمل فرماں برداری سے دور کرنے کے لیے بہانے تراشتے ہیں، معمولی لغزشوں کو جائز ٹھہراتے ہیں، اور جزوی اطاعت کو کافی ظاہر کرتے ہیں۔

قرآن مجید اور سیرتِ نبوی صلی اللہ علیہ وسلم ہمیں سکھاتی ہے کہ اگر ہماری نیت، عمل اور تعلقات اللہ کی ہدایت کے مطابق ہوں تو ہماری ہر سرگرمی عبادت بن سکتی ہے۔ رزقِ حلال کمانا مثلاً دین سے الگ نہیں بلکہ اس کا لازمی جزو ہے۔ اسلام اس پر زور دیتا ہے کہ ہمارا کمائی کا ذریعہ حلال ہو، دھوکہ، فریب اور ناانصافی سے پاک ہو۔ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: "سچا اور امانت دار تاجر قیامت کے دن انبیاء، صدیقین اور شہداء کے ساتھ ہوگا۔" یہ حدیث ہمیں یاد دلاتی ہے کہ مالی معاملات میں دیانت اور سچائی بھی اتنی ہی اہم ہیں جتنی نماز اور روزہ۔

حضرت ابراہیم علیہ السلام کی قربانی کی داستان، جب انہوں نے اللہ کے حکم پر اپنے محبوب بیٹے کو قربان کرنے کا عزم کیا، مکمل اطاعت کی ایک بے مثال اور لازوال مثال ہے۔ ان کا امتحان محض ایک رسم نہیں تھا بلکہ یہ ایک گہری آزمائش تھی کہ وہ اپنی سب سے عزیز چیز کو اللہ کے حکم کے تابع کر دیں۔ یہی ہے "اسلام میں مکمل داخل ہونے" کی اصل روح۔

ہم میں سے ہر ایک کو اپنی زندگی پر غور کرنا چاہیے: ہم اللہ کی رضا کے لیے کیا قربان کرنے کو تیار ہیں؟ کیا ہم ناجائز منافع کو چھوڑ سکتے ہیں؟ کیا ہم آسان مگر حرام ذرائع سے بچ سکتے ہیں؟ کیا ہم سچ بولنے پر ثابت قدم رہ سکتے ہیں چاہے کتنا ہی مشکل کیوں نہ ہو؟ مکمل اطاعت کا مطلب ہے کہ ہم اللہ کے احکامات کو ذاتی فائدے، آرام یا معاشرتی دباؤ پر فوقیت دیں، اور اپنی زندگی کے ہر شعبے کو اللہ کی ہدایت کے مطابق ڈھالنے کی کوشش کریں۔

آئیے ہم اپنی عبادات ہی میں نہیں، بلکہ اپنی گفتگو، اپنے اعمال اور اپنے تعلقات میں بھی اسلام کو زندہ کریں۔ ہماری خاندانی اور سماجی زندگی دیانت، شفقت اور عدل پر مبنی ہو۔ ہمارا ذریعۂ معاش پاکیزہ ہو، اور ہمارے معاملات میں انصاف ہو۔ جب ہم ایسا کرتے ہیں تو نہ صرف اللہ سے قریب ہوتے ہیں بلکہ دوسروں کے لیے اعتماد، اُمید اور بھلائی کا ذریعہ بھی بنتے ہیں۔

اللہ تعالیٰ ہمیں کامل اخلاص کے ساتھ اسلام میں مکمل داخل ہونے، شیطان کے قدموں سے بچنے، اور اپنے دین پر ثابت قدمی کے ساتھ عمل کرنے کی توفیق عطا فرمائے۔ آمین۔

مندرجہ بالا مضمون ابن کثیر، مفتی محمد شفیع صاحب، ابوالاعلیٰ مودودی صاحب، اور دیگر مآخذ کی تفاسیر پر مبنی ہے۔