بِسۡمِ اللهِ الرَّحۡمٰنِ الرَّحِيۡمِ
ایک مسلمان کی خصوصیات
Introduction
A Muslim is defined not just by his testification of Faith, but by a set of noble characteristics that shape his relationship with Allah, with other Muslims, and society in general. These qualities are essential in fulfilling the true purpose of Islam: to enjoin good, forbid evil, and live as a beacon of justice and mercy in the world. A Muslim’s character is shaped by the teachings of the Qur’an and the example of the Prophet Muhammad (ﷺ).
تعارف
ایک مسلمان کی پہچان صرف ایمان کی گواہی سے نہیں ہوتی بلکہ ان بلند اوصاف سے ہوتی ہے جو اس کے اللہ، اپنی ذات، اور معاشرے کے ساتھ تعلق کو تشکیل دیتے ہیں۔ یہ صفات اسلام کے اصل مقصد کو پورا کرنے کے لیے بنیادی حیثیت رکھتی ہیں: نیکی کا حکم دینا، برائی سے روکنا، اور دنیا میں عدل و رحمت کا مینار بن کر زندگی گزارنا۔ ایک مسلمان کا کردار قرآن کی تعلیمات اور رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی سیرت مبارکہ سے تشکیل پاتا ہے۔
1. Justice and Truthfulness
At the heart of a Muslim’s character lies an unshakable commitment to justice. The Qur’an commands believers to uphold the truth, even if it is against themselves, their parents, or close relatives. A true Muslim does not allow tribal loyalties, family connections, or personal ego to override the principles of justice.
When faced with wrongdoing, a Muslim is obligated to respond by taking action to correct it, speaking out against it, or at the very least, feeling a sense of disapproval in the heart. This last response is described as the weakest form of faith. To remain silent in the face of injustice is to betray this essential principle of Islam.
Sadly, we witness a widespread absence of justice, particularly in politics and among those in positions of power. This deficiency even affects the administration of our masājid. Some individuals seek control with the intention of holding onto it for life, appointing friends and relatives to secure their position, and avoiding accountability to the very congregation they claim to represent often without having been legitimately chosen by them.
As the Qur’an commands:
يَا أَيُّهَا الَّذِينَ آمَنُوا كُونُوا قَوَّامِينَ بِالْقِسْطِ شُهَدَاءَ لِلَّهِ وَلَوْ عَلَى أَنفُسِكُمْ أَوِ الْوَالِدَيْنِ وَالْأَقْرَبِينَ
“O you who believe! Stand out firmly for justice, as witnesses to Allah, even if it be against yourselves, your parents, or your relatives...” (Qur’an 4:135)
This commitment to justice is unconditional, transcending personal interests and social ties. Similarly, truthfulness is a defining trait:
عَلَيْكُمْ بِالصِّدْقِ فَإِنَّ الصِّدْقَ يَهْدِي إِلَى الْبِرِّ وَإِنَّ الْبِرَّ يَهْدِي إِلَى الْجَنَّةِ...
“You must be truthful. Verily, truthfulness leads to righteousness and righteousness leads to Paradise...” (Sahih al-Bukhari 6094, Sahih Muslim 2607)
عدل اور سچائی
ایک مسلمان کے کردار کی بنیاد عدل سے غیر متزلزل وابستگی پر ہے۔ قرآن مومنوں کو حکم دیتا ہے کہ وہ سچائی اور انصاف پر قائم رہیں، چاہے وہ خود ان کے اپنے خلاف ہو، ان کے والدین کے خلاف ہو، یا قریبی رشتہ داروں کے خلاف۔
ایک سچا مسلمان کبھی بھی قبائلی وابستگیوں، خاندانی تعلقات یا ذاتی انا کو عدل کے اصولوں پر غالب نہیں آنے دیتا۔
جب کسی ظلم یا برائی کا سامنا ہو، تو مسلمان پر لازم ہے کہ وہ اس کی اصلاح کے لیے عملی قدم اٹھائے، زبان سے اس کے خلاف بولے، یا کم از کم دل میں اس کو ناپسند کرے۔ دل سے برا جاننا ایمان کا سب سے کمزور درجہ ہے۔ ظلم پر خاموشی اختیار کرنا اسلام کے اس بنیادی اصول سے انحراف کے مترادف ہے۔
بدقسمتی سے ہم دیکھتے ہیں کہ عدل کی کمی ایک عام مسئلہ بن چکی ہے، خصوصاً سیاست اور اختیار رکھنے والے افراد کے درمیان۔ یہ کمی ہماری مساجد کے نظم و نسق کو بھی متاثر کرتی ہے۔ بعض افراد اقتدار حاصل کرنے کی نیت سے آگے بڑھتے ہیں اور پھر اسے عمر بھر اپنے قبضے میں رکھنا چاہتے ہیں۔ وہ اپنے دوستوں اور رشتہ داروں کو اہم عہدوں پر فائز کرتے ہیں تاکہ اپنی گرفت مضبوط رکھ سکیں، اور ان لوگوں کے سامنے جواب دہ ہونے سے بچتے ہیں جن کی نمائندگی کا وہ دعویٰ کرتے ہیں حالانکہ اکثر انہیں ان لوگوں نے منتخب ہی نہیں کیا ہوتا۔
جیسا کہ قرآن مجید میں ارشاد ہے:
يَا أَيُّهَا الَّذِينَ آمَنُوا كُونُوا قَوَّامِينَ بِالْقِسْطِ شُهَدَاءَ لِلَّهِ وَلَوْ عَلَى أَنفُسِكُمْ أَوِ الْوَالِدَيْنِ وَالْأَقْرَبِينَ
"اے ایمان والو! عدل پر مضبوطی سے قائم رہو، اللہ کے لیے گواہی دینے والے بنو، خواہ وہ گواہی خود تمہارے اپنے خلاف ہو، یا والدین اور قریبی رشتہ داروں کے خلاف..." (النساء: 135)
عدل سے وابستگی ہر حال میں لازم ہے، چاہے وہ ذاتی مفاد یا سماجی رشتوں کے برخلاف ہی کیوں نہ ہو۔
اسی طرح، سچائی بھی ایک نمایاں صفت ہے
عَلَيْكُمْ بِالصِّدْقِ فَإِنَّ الصِّدْقَ يَهْدِي إِلَى الْبِرِّ وَإِنَّ الْبِرَّ يَهْدِي إِلَى الْجَنَّةِ...
"تم سچائی کو لازم پکڑو، بے شک سچائی نیکی کی طرف لے جاتی ہے، اور نیکی جنت کی طرف رہنمائی کرتی ہے..." (صحیح البخاری 6094، صحیح مسلم 2607)
2. Enjoining Good and Forbidding Evil
The duty to enjoin what is right and forbid what is wrong is a defining characteristic of the Muslim community. Once the mission of the Prophets, this responsibility now rests with the Ummah. The Qur’an describes Muslims as “the best nation raised for mankind” because of their commitment to upholding virtue and preventing wrongdoing.
This obligation is so crucial that neglecting it can result in collective punishment, as warned by the Prophet Muhammad (ﷺ). Yet, today, calling out clear wrongdoing often leads to conflict reflecting a widespread erosion of our commitment to justice and truth.
Even offering simple advice, such as pointing out someone’s irresponsible parking or misuse of a Blue Badge, can spark unnecessary arguments. As a result, many choose silence to avoid confrontation, despite the Qur’an’s repeated emphasis on the duty to promote good and prevent evil:
كُنتُمْ خَيْرَ أُمَّةٍ أُخْرِجَتْ لِلنَّاسِ تَأْمُرُونَ بِالْمَعْرُوفِ وَتَنْهَوْنَ عَنِ الْمُنكَرِ وَتُؤْمِنُونَ بِاللَّهِ
“You are the best nation produced [as an example] for mankind. You enjoin what is right and forbid what is wrong and believe in Allah...” (Qur’an 3:110)
The Prophet Muhammad (ﷺ) explained the practical steps:
مَنْ رَأَى مِنْكُمْ مُنْكَرًا فَلْيُغَيِّرْهُ بِيَدِهِ فَإِنْ لَمْ يَسْتَطِعْ فَبِلِسَانِهِ فَإِنْ لَمْ يَسْتَطِعْ فَبِقَلْبِهِ وَذَلِكَ أَضْعَفُ الْإِيمَانِ
“Whoever among you sees an evil, let him change it with his hand; if he cannot, then with his tongue; if he cannot, then with his heart-and that is the weakest of faith.” (Sahih Muslim 49)
نیکی کا حکم دینا اور برائی سے روکنا
نیکی کا حکم دینا اور برائی سے روکنا امت مسلمہ کی ایک امتیازی پہچان ہے۔ یہ وہ ذمہ داری ہے جو پہلے انبیائے کرام کے سپرد تھی، اور اب امت کے کندھوں پر ہے۔ قرآن مسلمانوں کو "لوگوں کے فائدے کے لیے نکالی گئی بہترین امت" اسی لیے قرار دیتا ہے کہ وہ بھلائی کا حکم دیتے اور برائی سے روکتے ہیں۔
یہ فریضہ اس قدر اہم ہے کہ اگر اسے ترک کر دیا جائے تو اجتماعی عذاب نازل ہونے کا اندیشہ ہے، جیسا کہ نبی کریم ﷺ نے خبردار فرمایا۔ افسوس کے ساتھ کہنا پڑتا ہے کہ آج کے دور میں کسی واضح برائی کی نشاندہی کرنا اکثر تنازع کا سبب بن جاتا ہے، جو اس بات کی علامت ہے کہ ہم انصاف اور سچائی کے تقاضوں سے کس قدر غافل ہو چکے ہیں۔
یہاں تک کہ اگر کسی کو یہ سمجھانے کی کوشش کی جائے کہ اس نے گاڑی غیر ذمہ داری سے پارک کی ہے یا وہ نیلی بیج (Blue Badge) کا ناجائز استعمال کر رہا ہے، تو یہ بات اکثر غیر ضروری جھگڑے میں بدل جاتی ہے۔ اسی خوف سے اکثر لوگ خاموشی اختیار کر لیتے ہیں تاکہ جھگڑا نہ ہو، حالانکہ قرآن مجید بار بار نیکی کو فروغ دینے اور برائی سے روکنے کے فریضے پر زور دیتا ہے
كُنتُمْ خَيْرَ أُمَّةٍ أُخْرِجَتْ لِلنَّاسِ تَأْمُرُونَ بِالْمَعْرُوفِ وَتَنْهَوْنَ عَنِ الْمُنكَرِ وَتُؤْمِنُونَ بِاللَّهِ
"تم بہترین امت ہو جو لوگوں کے فائدے کے لیے نکالی گئی ہے، تم نیکی کا حکم دیتے ہو، برائی سے روکتے ہو اور اللہ پر ایمان رکھتے ہو۔"
(القرآن 3:110)
نبی کریم ﷺ نے اس فریضے کو ادا کرنے کے عملی درجات بھی بیان فرمائے:
مَنْ رَأَى مِنْكُمْ مُنْكَرًا فَلْيُغَيِّرْهُ بِيَدِهِ فَإِنْ لَمْ يَسْتَطِعْ فَبِلِسَانِهِ فَإِنْ لَمْ يَسْتَطِعْ فَبِقَلْبِهِ وَذَلِكَ أَضْعَفُ الْإِيمَانِ
"تم میں سے جو کوئی برائی کو دیکھے، تو اسے اپنے ہاتھ سے روکے؛ اگر اس کی طاقت نہ ہو، تو زبان سے روکے؛ اور اگر اس کی بھی طاقت نہ ہو، تو دل سے برا سمجھے — اور یہ ایمان کا کمزور ترین درجہ ہے۔"
(صحیح مسلم 49)
3. Honesty, Sincerity, and Integrity
A Muslim is characterized by honesty in words and actions, sincerity in intentions, and integrity in dealings. Lying, cheating, and deception are strictly forbidden. These values extend to all aspects of life, including business and personal relationships. Unfortunately, dishonesty has become far too common amongst Muslims when it comes to money matters, whether it is in running a business or claiming State benefits by lying. Honesty is a recurring theme in the Qur’an and Sunnah:
وَإِذَا قُلْتُمْ فَاعْدِلُوا وَلَوْ كَانَ ذَا قُرْبَىٰ
“And when you speak, be just, even if it concerns a near relative...” (Qur’an 6:152)
The Prophet (ﷺ) said: “Beware of falsehood. Verily, falsehood leads to wickedness and wickedness leads to the Hellfire...” (Sahih al-Bukhari 6094, Sahih Muslim 2607)
سچائی، اخلاص اور دیانت داری
ایک مسلمان کی پہچان اس کی باتوں اور اعمال میں سچائی، نیت میں اخلاص، اور معاملات میں دیانت داری سے ہوتی ہے۔ جھوٹ، دھوکہ دہی اور فریب اسلام میں قطعی طور پر ممنوع ہیں۔ یہ اقدار زندگی کے ہر شعبے — چاہے وہ کاروباری ہو یا ذاتی تعلقات — میں یکساں طور پر اہم ہیں۔
بدقسمتی سے آج کے دور میں مالی معاملات میں بےایمانی مسلمانوں کے درمیان عام ہوتی جا رہی ہے، خواہ وہ کاروبار کی صورت میں ہو یا جھوٹ بول کر ریاستی امداد حاصل کرنے میں۔ یہ روش اسلامی تعلیمات کی کھلی خلاف ورزی ہے۔
قرآن اور سنت میں بار بار سچائی اور عدل پر زور دیا گیا ہے:
وَإِذَا قُلْتُمْ فَاعْدِلُوا وَلَوْ كَانَ ذَا قُرْبَىٰ
"اور جب بات کرو تو انصاف سے کرو، خواہ وہ تمہارے قریبی رشتہ دار ہی کے بارے میں کیوں نہ ہو۔"
(القرآن 6:152)
نبی کریم ﷺ نے فرمایا:
"جھوٹ سے بچو، کیونکہ جھوٹ برائی کی طرف لے جاتا ہے، اور برائی جہنم کی طرف لے جاتی ہے۔"
(صحیح بخاری 6094، صحیح مسلم 2607)
4. Earning a Halāl Income
Islam places great importance on earning a livelihood through lawful (halāl) means. Seeking halāl income is a fundamental aspect of Islamic character. Muslims are expected to pursue their earnings through honest and permissible ways, avoiding forbidden practices such as interest fraud, lying, deceiving and interest (usury)and the sale of prohibited items like alcohol, drugs, or gambling.
The Prophet (ﷺ) warned, “The trial of my nation is wealth.” Like a powerful magnet, money can tempt us toward shortcuts—lying to claim benefits, falsifying insurance documents, or engaging in the sale of harām items. Sadly, even those who are regular in their prayers and attend the masjid may hide their income to cheat the benefits system. But Allah ﷻ reminds us in the Qur’an:
"Your wealth and your children are but a trial." (Qur’an 64:15)
The Prophet (ﷺ) also foretold: “A time will come when people will no longer care whether what they earn is halāl or harām.” (Sahih Bukhari, 2059)
Earning through halāl means brings inner peace, spiritual contentment, and the barakah (blessing) of Allah. It nurtures personal integrity and promotes social responsibility by encouraging fair trade and ethical business practices that uplift the entire community. The Qur’an commands:
يَا أَيُّهَا النَّاسُ كُلُوا مِمَّا فِي الْأَرْضِ حَلَالًا طَيِّبًا وَلَا تَتَّبِعُوا خُطُوَاتِ الشَّيْطَانِ
“O mankind, eat from whatever is on earth [that is] lawful and pure and do not follow the footsteps of Satan...” (Qur’an 2:168)
Earnings from prohibited sources such as fraud, bribery, deception or the sale of forbidden items are condemned.
حلال روزی کمانے سے متعلق اسلامی تعلیمات
اسلام میں جائز (حلال) طریقے سے روزی کمانے کو بہت بڑی اہمیت دی گئی ہے۔ حلال کمائی اسلامی کردار کا ایک بنیادی پہلو ہے۔ مسلمانوں کو حکم ہے کہ وہ ایماندارانہ اور جائز طریقوں سے روزی کمائیں، اور ان تمام حرام ذرائع سے بچیں جن میں سود، جھوٹ، فریب، دھوکہ دہی اور ایسی اشیاء کی خرید و فروخت شامل ہے جو شریعت میں ممنوع ہیں، جیسے شراب، نشہ آور چیزیں اور جُوا۔
نبی کریم ﷺ نے فرمایا:
"میری اُمت کا فتنہ مال ہے۔"
(ترمذی)
مال و دولت ایک طاقتور مقناطیس کی طرح ہمیں غلط راستوں کی طرف مائل کر سکتا ہے—جیسے جھوٹ بول کر ریاستی فوائد لینا، انشورنس کے جعلی کاغذات تیار کرنا، یا حرام چیزوں کی خرید و فروخت میں ملوث ہونا۔ افسوس کہ بعض اوقات باقاعدگی سے نماز پڑھنے والے اور مسجد کے نمازی بھی اپنی آمدنی چھپا کر حکومتی نظام کو دھوکہ دینے کی کوشش کرتے ہیں۔
اللہ ﷻ قرآن مجید میں فرماتے ہیں:
"إِنَّمَا أَمْوَالُكُمْ وَأَوْلَادُكُمْ فِتْنَةٌ"
"تمہارے مال اور تمہاری اولاد تمہارے لیے آزمائش ہیں۔"
(القرآن 64:15)
نبی کریم ﷺ نے یہ بھی فرمایا:
"ایسا وقت آئے گا جب لوگوں کو اس بات کی پرواہ نہیں ہوگی کہ ان کی کمائی حلال ہے یا حرام۔"
(صحیح بخاری 2059)
حلال کمائی انسان کو دل کا سکون، روحانی اطمینان، اور اللہ کی طرف سے برکت عطا کرتی ہے۔ یہ ذاتی دیانت کو مضبوط کرتی ہے اور معاشرتی ذمہ داری کو فروغ دیتی ہے، جس سے منصفانہ تجارت اور اخلاقی کاروباری اصول پروان چڑھتے ہیں جو پوری کمیونٹی کے لیے مفید ہوتے ہیں۔
اللہ تعالیٰ قرآن مجید میں ارشاد فرماتے ہیں:
يَا أَيُّهَا النَّاسُ كُلُوا مِمَّا فِي الْأَرْضِ حَلَالًا طَيِّبًا وَلَا تَتَّبِعُوا خُطُوَاتِ الشَّيْطَانِ
"اے لوگو! زمین میں جو کچھ حلال اور پاکیزہ ہے، اسے کھاؤ، اور شیطان کے نقشِ قدم پر نہ چلو۔"
(القرآن 2:168)
جعلسازی، رشوت، دھوکہ دہی اور حرام اشیاء کی تجارت جیسے ذرائع سے حاصل ہونے والی آمدنی اسلام میں سختی سے ممنوع اور مذموم ہے۔
5. Brotherhood and Desiring for Others What One Desires for Oneself
A true Muslim wishes for their brother what they wish for themselves. This principle eliminates jealousy, hatred, and envy, fostering a community built on mutual support and compassion. If a Muslim sees a deficiency in their brother, they strive to advise and help, not to expose or belittle. This is the essence of Islamic brotherhood: loving for others what one loves for oneself, and disliking for them what one dislikes for oneself. Brotherhood is at the heart of Muslim character. The Qur’an declares:
إِنَّمَا الْمُؤْمِنُونَ إِخْوَةٌ
“The believers are but brothers...” (Qur’an 49:10)
The Prophet (ﷺ) said:
لَا يُؤْمِنُ أَحَدُكُمْ حَتَّى يُحِبَّ لِأَخِيهِ مَا يُحِبُّ لِنَفْسِهِ
“None of you truly believes until he loves for his brother what he loves for himself.” (Sahih Bukhari and Sahih Muslim)
This principle fosters empathy, compassion, and unity, urging Muslims to support and care for one another.
بھائی چارہ اور اپنے لیے جو پسند ہو، وہی دوسروں کے لیے پسند کرنا
ایک سچا مسلمان اپنے بھائی کے لیے وہی پسند کرتا ہے جو وہ اپنے لیے پسند کرتا ہے۔ یہ اصول حسد، بغض اور کینہ جیسے منفی جذبات کا خاتمہ کرتا ہے، اور ایک ایسا معاشرہ تشکیل دیتا ہے جو باہمی ہمدردی، خیرخواہی اور تعاون پر مبنی ہو۔
اگر کوئی مسلمان اپنے بھائی میں کوئی کمی یا غلطی دیکھے تو وہ اس کی اصلاح کی کوشش کرتا ہے، خیرخواہی سے نصیحت کرتا ہے، نہ کہ اس کو رسوا کرتا ہے یا اس کی توہین کرتا ہے۔ یہی اسلامی بھائی چارے کی اصل روح ہے: دوسروں کے لیے بھی وہی پسند کرنا جو اپنے لیے پسند ہو، اور جو اپنے لیے ناپسند ہو، وہی دوسروں کے لیے بھی ناپسند کرنا۔
بھائی چارہ مسلمان کے کردار کی بنیاد ہے۔ قرآن مجید میں فرمایا:
إِنَّمَا الْمُؤْمِنُونَ إِخْوَةٌ
"بیشک سب مؤمن آپس میں بھائی بھائی ہیں۔"
(القرآن 49:10)
نبی کریم ﷺ نے فرمایا:
لَا يُؤْمِنُ أَحَدُكُمْ حَتَّى يُحِبَّ لِأَخِيهِ مَا يُحِبُّ لِنَفْسِهِ
"تم میں سے کوئی اس وقت تک کامل مومن نہیں ہو سکتا جب تک وہ اپنے بھائی کے لیے وہی نہ چاہے جو اپنے لیے چاہتا ہے۔"
(صحیح بخاری و صحیح مسلم)
یہ اصول مسلمانوں کے دلوں میں ہمدردی، شفقت اور اتحاد کو پروان چڑھاتا ہے، اور انہیں ایک دوسرے کی خبرگیری اور مدد کی ترغیب دیتا ہے۔
6. Purity of Heart and Sincerity of Worship
A Muslim strives to purify his heart from hatred, hypocrisy, and ill will. Their acts of worship are sincere, and their wealth is spent in charity and good causes. This spiritual purity is reflected in their daily actions and interactions.
دل کی پاکیزگی اور عبادت میں خلوص
ایک مسلمان کی یہ کوشش ہوتی ہے کہ وہ اپنے دل کو نفرت، نفاق اور بد نیتی سے پاک رکھے۔ اس کی عبادت خالصتاً اللہ کے لیے ہوتی ہے، اور وہ اپنا مال خیرات اور نیکی کے کاموں میں خرچ کرتا ہے۔
یہ روحانی پاکیزگی صرف عبادت تک محدود نہیں رہتی بلکہ اس کے روزمرہ کے اعمال، برتاؤ اور لوگوں کے ساتھ تعلقات میں بھی جھلکتی ہے۔ ایک سچا مسلمان نیکی، سچائی، خلوص اور ہمدردی کے ساتھ زندگی گزارتا ہے، اور یہی دل کی پاکیزگی کا عملی اظہار ہوتا ہے۔
Conclusion
A Muslim’s character is built on justice, truthfulness, enjoining good, forbidding evil, earning halāl, and loving for others what one loves for oneself. These qualities, rooted in the Qur’an and Sunnah, are the foundation of a just and compassionate society and the key to attaining Allah’s pleasure in this life and the next.
نتیجہ
ایک مسلمان کے کردار کی بنیاد عدل و انصاف، سچائی، نیکی کا حکم دینا، برائی سے روکنا، حلال روزی کمانا، اور دوسروں کے لیے وہی پسند کرنا ہے جو اپنے لیے پسند کرتا ہے۔
یہ تمام خوبیاں قرآن و سنت سے ماخوذ ہیں، اور یہی اوصاف ایک منصفانہ، پرامن اور ہمدرد معاشرے کی تشکیل میں بنیادی کردار ادا کرتے ہیں۔
ان صفات کو اپنانا نہ صرف دنیا میں کامیابی اور سکون کا ذریعہ ہے بلکہ آخرت میں اللہ کی رضا حاصل کرنے کی کنجی بھی یہی ہے۔
Dr. A.Hussain