اردو ترجمہ نیچے
بِسۡمِ اللهِ الرَّحۡمٰنِ الرَّحِيۡمِ
کیا نیک مسلمان کے کوئی دشمن نہیں ہوتے؟
We often admire those who appear to be at peace with everyone. They smile, avoid disagreements, never raise their voices, and steer clear of anything controversial. It’s easy to assume that such a person must be truly righteous. But we must ask ourselves honestly: is it really possible for a sincere Muslim to live without ever making enemies?
From an Islāmic perspective, this is a deeply important question. It gets to the heart of what it means to be truthful, to stand for justice, and to live by faith in a world where truth is not always welcome.
Islām is a religion of mercy, justice, and balance. We are commanded to act justly even towards those who oppose us. Our beloved Prophet () was the highest example of this. He faced hatred with patience, responded to insults with dignity, and forgave even when he had full power to punish. He never acted out of personal anger or revenge, but his entire life was defined by mercy and sincerity.
Yet we must not ignore the reality that Islām is a faith rooted in truth. And the truth, by its very nature, disrupts falsehood. Whenever someone rises to speak the truth or to oppose injustice, resistance will come. Not because of any harshness in their speech or behaviour, but because falsehood always resists the one who exposes it.
Even the Prophet (), with his unmatched character, faced mockery, slander, boycott, and violence. His enemies were not reacting to cruelty or harshness because there was none. They were reacting to the power of truth that threatened their unjust systems and interests. And this is a pattern we see repeated throughout history. Every prophet whether it was Musa, ‘Isa, or Muhammad (peace be upon them all) faced fierce opposition not because they were divisive, but because they stood firm.
Islām teaches us to repel evil with what is better, to be forgiving and gentle. But even then, we are told clearly that trials are part of the path. If the Prophet (), despite his kindness and humility, was met with enemies, how can anyone of us expect to live a life of faith without any friction?
In fact, if we find that we are never opposed, never challenged, never criticised, then perhaps it is time to reflect. Could it be that we are avoiding uncomfortable truths? That we are staying silent when we should speak? That we are choosing acceptance over integrity? Not all peace is praiseworthy some peace is built on compromise, and sometimes that compromise comes at the cost of our principles. Silence can be comforting, but it can also be cowardice.
And sadly, we see far too often today that many people give up truth to gain leadership, popularity, or the approval of the powerful. They soften their stance not out of mercy, but to keep their position. The Prophet () warned us about the dangers of leadership, he said: “You will covet leadership, but it will be a cause of regret on the Day of Resurrection.” Authority can be a test that corrupts a person’s heart, leading to pride, injustice, and the loss of sincerity.
We should remember the example of the great imams of our tradition Imam Abu Hanifa, Imam Malik, Imam Ahmad ibn Hanbal, may Allāh () have mercy on them. They consciously kept their distance from rulers and power, not because they were unwise, but because they knew how easily the truth could be compromised when one grows too close to those in authority. They feared for their sincerity more than they feared for their comfort or reputation.
This leads to an important question: Should a righteous Muslim try to advise and influence those in power? Islām encourages us to enjoin good and forbid evil, but it also warns us about the company we keep. The Prophet () said: “A person follows the religion of his close friend, so each of you should look at whom he befriends.” So we must look carefully at whom we surround ourselves with. In trying to influence the powerful, there is always the danger that we ourselves might be influenced instead. The line between advising and justifying can blur. And history has shown that even sincere people can fall when seduced by status, access, or luxury.
So if you face enemies because you speak the truth, stand for justice, and call people to accountability, be at peace, you may be on the path towards righteousness. But if you never seem to upset anyone, never challenge wrongdoing, and always fit in comfortably it may be time to ask yourself: What truths am I avoiding? What wrongs am I silently accepting?
A believer is not defined by how few enemies he has, but by how he responds to opposition with patience, with dignity, and with full trust in Allāh (). To stand for truth is not easy, but it is honourable. And Allāh (
) never lets the efforts of the sincere go to waste.
Dr. A. Hussain, 2025
________________________________________
کیا نیک مسلمان کے کوئی دشمن نہیں ہوتے؟
ہم اکثر اُن لوگوں کو قابلِ تعریف سمجھتے ہیں جو ہر ایک کے ساتھ میل جول رکھتے ہیں۔ جو ہر وقت مسکراتے ہیں، اختلافات سے بچتے ہیں، کبھی آواز بلند نہیں کرتے، اور کسی تنازع میں نہیں پڑتے۔ بظاہر ایسے لوگ بڑے نیک، سمجھدار اور خدا ترس نظر آتے ہیں۔ لیکن ہمیں دیانت داری سے اپنے دل سے یہ سوال ضرور کرنا چاہیے: کیا ایک سچا مسلمان کبھی دشمن بنائے بغیر زندگی گزار سکتا ہے؟
اسلامی نقطۂ نظر سے یہ سوال نہایت اہم ہے، کیونکہ یہ ہمیں سچائی، عدل اور ایمان کے اُس مفہوم کی طرف لے جاتا ہے جس کا تقاضا یہ ہے کہ ہم ایسے معاشرے میں بھی حق پر قائم رہیں جہاں سچائی کو اکثر ناپسند کیا جاتا ہے۔
اسلام ایک ایسا دین ہے جو رحمت، عدل اور توازن کی بنیاد پر قائم ہے۔ ہمیں حکم دیا گیا ہے کہ ہم اپنے مخالفین کے ساتھ بھی انصاف کریں۔ ہمارے پیارے نبی ﷺ اس کا اعلیٰ ترین نمونہ تھے۔ آپ ﷺ نے دشمنی کو صبر سے جواب دیا، گالیوں کا سامنا وقار کے ساتھ کیا، اور اُنہیں معاف کر دیا جنہیں آپ سزا دے سکتے تھے۔ آپ ﷺ کا ہر عمل اخلاص اور رحمت پر مبنی تھا، نہ کہ ذاتی غصے یا انتقام پر۔
مگر ہمیں یہ حقیقت بھی یاد رکھنی چاہیے کہ اسلام حق پر مبنی دین ہے، اور حق کی فطرت یہ ہے کہ وہ باطل کو ہلا دیتا ہے۔ جب کوئی شخص سچ بولتا ہے یا ظلم کے خلاف کھڑا ہوتا ہے تو مزاحمت آتی ہے۔ یہ مزاحمت اُس کی سخت کلامی یا بدتمیزی کی وجہ سے نہیں، بلکہ اس لیے ہوتی ہے کہ باطل ہمیشہ اُسے رد کرتا ہے جو اسے بے نقاب کرتا ہے۔
ہمارے نبی ﷺ، جن کی اخلاقی عظمت کا کوئی ثانی نہیں، اُنہیں بھی طعن و تشنیع، جھوٹے الزامات، سوشل بائیکاٹ اور تشدد کا سامنا کرنا پڑا۔ اُن کے دشمن اُن کے سخت رویے کا نہیں بلکہ اُس سچ کا ردعمل تھے جو اُن کے ظلم پر مبنی نظام کو خطرہ دے رہا تھا۔ یہ معاملہ صرف رسول اللہ ﷺ تک محدود نہیں تھا۔ تاریخ گواہ ہے کہ ہر نبی—چاہے وہ موسیٰ علیہ السلام ہوں، عیسیٰ علیہ السلام ہوں یا محمد مصطفیٰ ﷺ—کو شدید مخالفت کا سامنا اس لیے کرنا پڑا کیونکہ وہ سچ پر ڈٹے رہے۔
اسلام ہمیں یہ سکھاتا ہے کہ ہم برائی کا جواب بھلائی سے دیں، معاف کریں، اور نرمی اختیار کریں۔ لیکن ساتھ ہی یہ حقیقت بھی واضح کی گئی ہے کہ آزمائش ایمان کے راستے کا حصہ ہے۔ اگر رسول اللہ ﷺ، اپنی شفقت اور عاجزی کے باوجود، دشمنوں کا سامنا کیے بغیر نہ رہ سکے، تو ہم میں سے کون یہ امید کر سکتا ہے کہ اُسے کبھی مخالفت کا سامنا نہ ہو؟
اگر ہم دیکھیں کہ ہمیں کبھی کوئی چیلنج نہیں کرتا، کوئی تنقید نہیں کرتا، تو شاید وقت آ گیا ہے کہ ہم اپنا محاسبہ کریں۔ کیا ہم وہ سچ نہیں بول رہے جو تکلیف دہ ہو؟ کیا ہم اُس وقت خاموش ہو جاتے ہیں جب ہمیں بولنا چاہیے؟ کیا ہم لوگوں کی خوشنودی کو دیانت پر ترجیح دے رہے ہیں؟ ہر قسم کا سکون قابلِ تعریف نہیں ہوتا۔ بعض اوقات سکون اصولوں کی قربانی سے خریدا جاتا ہے، اور خاموشی بزدلی بن جاتی ہے۔
افسوس کہ آج ہم دیکھتے ہیں کہ بہت سے لوگ سچ کو اس لیے چھوڑ دیتے ہیں تاکہ انہیں اقتدار، شہرت یا طاقتوروں کی منظوری حاصل ہو جائے۔ وہ اپنا موقف اس لیے نرم کرتے ہیں تاکہ مقام محفوظ رہے، نہ کہ اس لیے کہ ان کے دل میں رحم ہو۔ نبی کریم ﷺ نے قیادت کی حرص سے خبردار کیا۔ آپ ﷺ نے فرمایا: "تم قیادت کی خواہش کرو گے، لیکن قیامت کے دن وہ تمہارے لیے ندامت کا سبب بنے گی۔" قیادت دلوں کو بدل دیتی ہے، تکبر، ناانصافی اور اخلاص کی بربادی کا ذریعہ بن سکتی ہے۔
ہمیں اپنے اسلاف کی مثال کو یاد رکھنا چاہیے—امام ابوحنیفہؒ، امام مالکؒ، امام احمد بن حنبلؒ—جنہوں نے شعوری طور پر حکمرانوں سے فاصلہ رکھا۔ یہ اُن کی کم عقلی نہیں تھی، بلکہ وہ جانتے تھے کہ جب سچائی اقتدار کے قریب ہو جائے تو اسے قربان کرنا آسان ہو جاتا ہے۔ اُنہوں نے اپنی اخلاص کی حفاظت کو دنیاوی عزت اور آرام سے زیادہ قیمتی جانا۔
یہاں ایک اور سوال اُبھرتا ہے: کیا ایک نیک مسلمان کو اہلِ اقتدار کو نصیحت کرنی چاہیے؟ اسلام ہمیں نیکی کا حکم دینے اور برائی سے روکنے کی تعلیم دیتا ہے، لیکن ساتھ ہی ہمیں ہماری صحبت سے بھی خبردار کرتا ہے۔ نبی ﷺ نے فرمایا: "آدمی اپنے دوست کے دین پر ہوتا ہے، پس تم میں سے ہر ایک کو دیکھنا چاہیے کہ وہ کس سے دوستی کرتا ہے۔" طاقتور لوگوں کو نیکی کی دعوت دیتے ہوئے یہ خطرہ ہمیشہ رہتا ہے کہ کہیں ہم خود ان سے متاثر نہ ہو جائیں۔ نصیحت اور چاپلوسی کے درمیان فرق مٹ سکتا ہے۔ تاریخ نے ہمیں دکھایا ہے کہ کتنے ہی مخلص لوگ عہدے، رسائی یا عیش و آرام کے فریب میں آ کر گر گئے۔
لہٰذا اگر آپ کو دشمنی کا سامنا صرف اس لیے ہے کہ آپ سچ بولتے ہیں، عدل کا ساتھ دیتے ہیں، اور جوابدہی کا مطالبہ کرتے ہیں—تو یقین رکھیں، آپ راہِ حق پر ہیں۔ لیکن اگر آپ کبھی کسی کو ناراض نہیں کرتے، کبھی ظلم کو چیلنج نہیں کرتے، اور ہمیشہ ہر ماحول میں خود کو آسانی سے فِٹ کر لیتے ہیں—تو خود سے یہ سوال ضرور کریں: میں کس سچ سے نظریں چرا رہا ہوں؟ میں کس ظلم پر خاموش ہوں؟
ایک مؤمن کی پہچان اس سے نہیں ہوتی کہ اس کے دشمن کتنے کم ہیں، بلکہ اس سے ہوتی ہے کہ وہ مخالفت کا سامنا کس صبر، وقار اور اللہ پر بھروسے کے ساتھ کرتا ہے۔ سچائی پر کھڑے ہونا آسان نہیں، مگر یہ راستہ باعزت اور کامیاب ہے۔ اور اللہ تعالیٰ مخلصوں کی کوششوں کو کبھی ضائع نہیں کرتا۔